*جھنگ(جاوید اعوان سے)محمد طاہر شماریاتی آفیسر کے دستخطوں سے وصول شدہ ریکارڈ نے گھوسٹ بھرتیوں، جعلی آرڈرز اور مالی بے ضابطگیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا*
*محکمہ صحت جھنگ میں گھوسٹ ملازمین، جعلی بھرتیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے انکشافات نے پورے ضلع میں ہلچل مچا دی ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق شماریاتی آفیسر محمد طاہر کے دستخطوں سے وصول شدہ ریکارڈ نے محکمے میں جاری جعلسازیوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق محکمانہ کمیٹی کے دستخطوں سے منتخب امیدواران سے تجاوز کرتے ہوئے 155 افراد کی جعلی بھرتیوں کے آرڈرز جاری کیے گئے، جن کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر ریگولرائزیشن کے عمل کو تقویت دی گئی*۔
*ذرائع کے مطابق وصول کیے گئے ریکارڈ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ 155 افراد سے زائد تمام افراد کو ریکوری ریکارڈ کے بعد جعلی دستاویزات کے ذریعے ظاہر کر کے جعلی عمل انجام دیا گیا۔ محکمے کے اندر بااثر عناصر نے اپنی من پسند “ریگولر کمیٹی” تشکیل دے کر بیشمار افراد کو غیر قانونی طور پر ریگولر کروا لیا، جبکہ ان بھرتیوں کا کوئی حقیقی وجود نہ ریکارڈ میں پایا گیا اور نہ ہی اصل کمیٹی کے منٹس آف میٹنگ میں۔مزید انکشاف ہوا کہ محکمے کے اندر موجود کرپٹ اہلکاروں نے ہر ڈی ڈی او کوڈ کے تحت من پسند اکاؤنٹنٹس تعینات کر رکھے تھے جنہوں نے افسران کے ساتھ ملی بھگت سے جعلی رسیدات، منٹس آف میٹنگ اور دفتری دستاویزات تیار کر کے غیر متعلقہ برانچوں سے فنڈز ریلیز کرائے۔ بعض اہلکاروں نے لاہور ہائیکورٹ کے نام پر جعلی فوٹو کاپیز اور خود ساختہ پٹیشن تیار کر کے یہ تاثر دیا کہ عدالت کی ہدایت پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں، حالانکہ ریکارڈ کی جانچ سے ثابت ہوا کہ نہ کوئی عدالتی حکم موجود تھا اور نہ ہی محکمہ ایجوکیشن یا ڈپٹی کمشنر جھنگ کو کسی عدالتی ڈائریکشن سے آگاہ کیا گیا*
*جب ضلعی آفیسر محکمہ صحت جھنگ احمد شہزاد نے یہ تمام ریکارڈ اپنے دستخطوں سے چیف انفارمیشن کمیشن پنجاب لاہور میں پیش کیا تو اصل حقیقت بے نقاب ہو گئی کہ محکمے میں ایک خود ساختہ ریگولر کمیٹی تشکیل دے کر گھوسٹ افراد کے نام پر جعلی بلز اور دستاویزات تیار کیے گئے جن کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے فنڈز ریلیز کیے جاتے رہے*۔
*تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ ان گھوسٹ افراد کو عرصہ دراز سے تنخواہیں، الاؤنسز اور دیگر سرکاری مراعات فراہم کی جا رہی تھیں، جس سے قومی خزانے پر ماہانہ لاکھوں روپے کا بوجھ پڑ رہا تھا۔ بعض گھوسٹ ملازمین کئی سالوں سے تنخواہیں وصول کرتے رہے مگر ان کا کسی یونٹ یا دفتر میں کوئی وجود ثابت نہ ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق یہ اسکینڈل محکمہ صحت جھنگ کی تاریخ کا بدترین مالیاتی اور انتظامی بحران تصور کیا جا رہا ہے، جس نے محکمے کے شفافیت اور میرٹ کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی ہے*۔
*اعلیٰ سطحی اداروں نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے، متعدد اکاؤنٹنٹس، کلرکوں اور افسران کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں جبکہ ابتدائی ریکوری کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تحقیقات مکمل ہو گئیں تو بڑی سطح پر جعلی بھرتیوں کی منسوخی، مزید ریکوریاں اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی متوقع ہے*۔
101







