183

شہر دل سیالکوٹ تحریر شاھد محمود

شہر دل سیالکوٹ
تحریر شاھد محمود

سیالکوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک خوبصورت صنعتی شہر ہے ۔ جس کا صدرمقام سٹی سیالکوٹ ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ بارشیں یہاں ہوتی ہیں جبکہ مون سون کے موسم میں کشمیر کے ندی نالے یہاں طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ بدھ مت کی مذہبی کتاب ملندا پنہ،ہندوؤں کی مذہبی کتابیں مہا بھارت، یونانی تاریخ کے صفحات،سرکاری گزٹئیر،آثار قدیمہ اورلوک داستانیں بتاتی ہیں کہ یہ شہر قریب دس ہزار سال پرانا ہے۔اس کی بنیاد کب پڑی کوئی درست فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ شہر پانچ ہزار قبل مسیح میں موجود تھا یہ خطہ زمین انتہائی سرسبز اورشاداب ہے۔ اس سے جموں شہر محض پینتیس سے چالیس کلومیٹر شمال مشرق میں دریائے توی پر واقع ہے۔ اکھنورشہرقریب چالیس کلومیٹر شمال میں دریائے چناب کے کنارے پر آباد ہے۔ایک ریلوےلائن اور سڑک سیالکوٹ سے جموں اور اکھنور شہرتک جاتی تھی۔ہمارے بچپن میں نارووال، شکرگڑھ سیالکوٹ کی تحصیلیں تھیں جبکہ 1991ء میں نارووال کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب نارووال،شکرگڑھ،ظفروال تین تحصیلوں پرمشتمل ہے۔ جبکہ سیالکوٹ، اب بھی سیالکوٹ،سمبڑیال، ڈسکہ،اور پسرور اس کی چار تحصیلیں ہیں۔ ڈسکہ زرعی آلات بنانے میں ہندوستان بھر میں مشہور تھا۔ پسرور مٹی کے برتن بنانے میں اور شوگر مل کی وجہ سے مشہور ہے۔اس کے پانچ قومی اسمبلی کے اور نو صوبائی اسمبلی کے حلقے ہیں۔ اس ضلع کی آبادی چوالیس لاکھ سے زائد ہے۔ یہ ضلع دریائے راوی اور چناب کے درمیان واقع ہے۔ جو رچنا دواب کہلاتا ہے۔ یہاں کی مادری زبان پنجابی ہے۔ سیالکوٹ لفظ پنجابی زبان کے لفظ سیال جس کا مطلب سردی کے ہیں اور کوٹ سندھی زبان کے لفظ گوٹھ کی بگڑی ہوئی شکل کوٹھ ہے جو بگڑتے سنورتے لفظ سیالکوٹ ہوگیا۔ جس کو پہلے سل کوٹ بھی بولتے تھے۔ جو اب سیالکوٹ ہی بولا، لکھا پڑھا جاتا ہے۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں ملتا ہے کہ اس شہر کو ساگلہ یا شانگلہ بولتے تھے جو مہیندر اول اور دوم کے زمانہ میں پنجاب کا دارالخلافہ تھا۔ پانچ سو قبل مسیح میں سنٹرل ایشئین ریاستوں سے ہن قبائل نے ٹیکسلا پر حملہ کیا اور بعد ازاں سیالکوٹ پر حملہ کرکے قلعہ کو وبرباد کر دیا۔ جنہوں نے بعد میں یہاں اپنا سکہ بھی رائج کیا۔ یہ شہراس وقت بھی صنعتی اعتبارمیں سب سے آگے تھا۔جب 326ء قبل مسیح میں سکندر یونانی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو سیالکوٹ شہر اس وقت بھی ترقی کے بام عروج پر تھا۔ اس شہر میں یونانی فوج نے لوٹ مار کرکے شہر کو تباہ حال کر دیا۔ اس زمانے میں اس شہر کی آبادی اَسی ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ اس علاقہ کا دارالخلافہ تھا۔ اس زمانہ میں لاہور شہر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس شہراور شاہی قلعہ کوترقی اور عروج راجہ رسالو کے والد راجہ سل یا سالوہن نے بخشا یہ شہر اس زمانے کا ایک ترقی یافتہ جدید شہر تھا۔ یہ راجہ سالوہن ہی تھا جس نے ایمن آباد شہر بھی آباد کیا تھا۔سیالکوٹ شہروالا شاہی قلعہ دوبارہ نالہ ایک کے قریب اونچی جگہ پر تعمیر کروایا تھا۔ جو صدیوں کے سفراورامتداد زمانہ کے ہاتھوں اجڑنے کے باوجود عالیشان حالت میں موجود ہے۔ جس پر کئی سرکاری ادارے کالج اور تھانہ کوتوالی موجود ہیں۔ جس نے شہر میں کئی جدید عمارتیں اور مندر بھی تعمیر کروائے تھے، تیجا شوالا کا مندر اب بھی موجود ہے۔ سیالکوٹ کے گاوۤں کرول میں کوٹلی سید امیر کے قریب پورن بھگت کا کنواں اور مندر اب بھی موجود ہیں۔ یہ پورن شہزادہ راجہ سالوہن کی پہلی بیوی سے تھا۔ جو سالوں کی منتوں اور مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا تاہم پورن نے سوتیلی ماں کے ہاتھوں بڑی تکلیفیں اٹھائیں تھیں۔جن کا مداوا بعد میں اس کے سوتیلے بھائی راجہ رسالو نے ادا کیا تھا۔ یہ قصہ پورن بھگت اسی راجہ سالوہن سے منسلک ہے۔ سندھ ساگرمیں اعتزاز احسن نے سیالکوٹ کی تاریخ اور اس قصے کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔ تاریخ سیالکوٹ کے مولف اشفاق نیاز نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے۔ سیالکوٹ کو اس کی تاریخ،جغرافیائی محل وقوع،زرعی، تجارتی و مقامی انڈسٹری کی ترقی نے اس شہر کو برصغیر کا چمکتا ستارہ بنائے رکھا۔ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے پرایک عرصہ تک سیالکوٹ پنجاب کا دارالخلافہ رہا۔ اس کی شان و شوکت میں کبھی کمی نہ آئی یہ شہر ہزاروں بار اجڑا اور اجڑ کر آباد ہوتا رہا۔ جب محمود غزنوی ہرسال ہندوستان پر حملہ کرتا مندروں سے مال و اسباب لوٹ کر واپس چلا جاتا۔ جب اس نے لاہور فتح کیا تو یہاں اپنی مستقل حکومت قائم کی تھی۔اُس نے اپنے وفادار غلام جرنیل ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا تو اس وقت سیالکوٹ سے دارالخلافہ لاہور منتقل ہوگیا تھا۔ جس کی ایک وجہ لاہور کا افغانستان سے دہلی کے راستے پر واقع ہونا تھا جبکہ سیالکوٹ دوسری طرف رہ جاتا تھا۔ دوسرا چونکہ لاہور تہذیبوں کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے ہرحکمران نے لاہورکواپنا مسکن بنائے رکھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیالکوٹ کی آہمیت کم ہوگی تھی اس شہر کو زراعت اور صنعت کا عروج آج تک قائم ہے۔ مغلیہ دور میں اگرچہ انہوں نے لاہور کو اپنا پایا تخت بنائے رکھا لیکن سیالکوٹ کی اپنی اہمیت تھی۔ جس کا واضح ثبوت شیر شاہ سوری کا مغل حکمرانوں کا زور توڑنے کے لیئے ایک بار پھر سیالکوٹ کو دارالخلافہ بنانا تھا۔ پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں سیالکوٹ کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بابا جی گرو نانک نے بھی سیالکوٹ شہر میں قیام کیا تھا اورسیالکوٹ میں مسلمان صوفی بزرگ حمزہ غوث سے ملاقات کے لئے آئے تھے۔اس صوفی بزرگ کے نام پرآج بھی پسرور روڈ پر بہت بڑا محلہ حمزہ غوث آباد ہے۔ یہاں پر بابا جی گرونانک کی یاد میں ایک گردوارہ بابے بیری آج بھی موجود ہے۔ یہاں کئی صوفی بزرگوں کے مزار ہیں۔ امام الحق کا دربار،پیرمرادیا کا دربار شاہی قلعہ پر، جب انگریزوں نے پنجاب پر مکمل قبضہ کر لیا تو 1852ء میں سیالکوٹ کو ضلع کا درجہ دے دیا جبکہ 1867ء میں سیالکوٹ شہر کو میونسپلٹی کا درجہ بھی دیا۔ انگریزوں نے پرانے شہر سے باہر ایک نیا شہر آباد کیا۔ جس کے ساتھ فوجی چھاونی بھی قائم کی گئی ۔ چرچ بھی تعمیر کیئے دیگر ادارے مثلا ڈسٹرکٹ جیل، کچہری، پولیس لائن،مشن ہسپتال،ریلوے اسٹیشن، کئی مشنری سکول قائم کئے گئے،علامہ اقبال کی مادری علمی گورنمنٹ مرے کالج بھی تعمیر کیا تھا۔ انگریز سرکار نے لندن، پیرس طرز پر سیالکوٹ کوایک ماڈرن شہر بنا دیا تھا۔ جس کی اپنی خوبصورتی ہے۔ یہاں پیرس کے نام پرخوبصورت تجارتی بنکوں کا پیرس روڈ بھی ہے۔ یہ شہرزراعت،تجارت اور سرجیکل،سپورٹس،ہوزری میں بام عروج حاصل کئے ہوئے ہے۔ جوآج بھی قائم ہے یہ شہر کشمیر کی اترائیوں میں میدانی علاقے پرآباد ہے جو کشمیر کے ندی نالوں دریاوۤں اور نہروں کی زرخیز سرزمین ہے۔ یہاں کی فصلوں میں چاول،گندم،آلو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ شہر صنعت وتجارت میں دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں سرجیکل آلات،سپورٹس،کھیلوں کا سامان،ہوزری،زرعی آلات تیار ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے اولمپکس اور فیفا ورلڈ کپ میں یہاں کے بنے ہوئے فٹ بال استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں کے ستارہ امتیاز خواجہ مسعود اختر کی فیکٹری فارورڈ سپورٹس کے فٹ بال فیفا ورلڈ کپ میں استعمال ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں تقریبا اسی فی صد یہاں سے سپلائی ہوتا ہے۔ سیاست،تجارت،علم،ادب،ثقافت، آداب میں اس خطہ زمین نے بڑا نام کمایا ہے۔ اردو و فارسی زبان کے عظیم شاعر علامہ اقبال اسی شہر کے فرزند ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی، فیض احمد فیض،پروفیسراصغرسودائی، جن کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ تحریک پاکستان کے دور میں بہت مشہور ہوا تھا۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم گلزاری لال نندا اس شہر سے تھے۔ معروف شاعر امجد اسلام امجد، سدرشن فاخر، کرشنا موہن ، بلراج کومل ، نون میم راشد، مختار صدیقی، مختار مسعود ، جاوید اقبال، اور کلاسیکل غزل گائیک غلام علی یہ سب یہاں سیالکوٹ میں ہی پیدا ہوئے تھے ، یہاں کے لوگ بہت محنتی، کاروباری، تجارتی ہیں۔ اس شہر کو سرجیکل اینڈ سپورٹس انڈسٹریز کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کا چھوتھا مصروف ترین بڑا ائیرپورٹ قائم کیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں ملک کا یہ دوسرا بڑا شہر ہے۔اس کے قصبات میں ہیڈ مرالہ کے قریب کوٹلی لوہاراں،قصبہ گوندل،سید پور، پھوکلیان، کوٹلی سید امیر،جنگ موڑ، معراج کے، کنگرہ موڑ،سبز پیر،پھلورہ منڈی ٹھرو،چونڈہ،پسرو،بڈیانہ،کوٹلی باوافقیرچند، بن باجوہ، چھیچھر والی ، کلاسوالا قلعہ کالروالا، میری مادر علمی رتہ جھٹول، بھگت پور ،ستراہ،میانوالی بنگلہ، سرانوالی، وڈالہ سندھواں،دھرم کوٹ چوک، بڈھا گورائیہ،تلہاڑا، منڈیکے گورائیہ چوک، ڈسکہ، گلوٹیاں کلاں، ہیڈ بمبانوالہ،کنڈن سیان،بھوپال والا، جامکے چیمہ،موترہ،گھوئنکی،ساہووالہ، سمبڑیال، بیگووالا، کوپرا،ماجرا کلاں، کلووال یہ چند ایک بڑے بڑے قصبات ہیں۔ چناب کے بعد ندی نالوں میں نالہ ڈیک سب سے بڑا نالہ ہے۔ جو ظفروال کے اوپر لہڑی سکروڑ کے مقام پر انڈیا کے شہر سامبا سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ جو سیالکوٹ کو سیراب کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ میرا آبائی گاوں میرک پور بھی ستراہ کے قریب اسی نالہ کے کنارے پرآباد ہے۔ اس پر مجھے فخر ہے کہ میں اسی خطہ زمین سے ہوں۔ میرا یہ ضلع سیالکوٹ جس کی زمین ،،ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی،، ہر شعبہ زندگی میں بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا ہے۔ جن میں موجودہ دور کی ادبی شخصیات ، شعراء کی کثیر تعداد، دورِ حاضر میں کئی کتابوں کے مصنف محمد اصف بھلی سیالکوٹ کینٹ، عمیرہ احمد، شاہد ذکی، گھوینکی سے تنویر احمد تنویر ڈسکہ سے ، گلزار پر لکھنے والا گل شیر بٹ ، اور افتخار شاہد سمبڑیال سے منظور حسین کاشف سیالکوٹ سے اعجاز اعزائی،زاہد بخاری سمیرا ساجد ناز،عاصمہ فراز،ہیڈ مرالہ کی دلنشیں شاعرہ صلہ سندھو، شجاع شاز، عاصم ممتاز ، ابن آدم پسروری، جاوید جمال ڈسکوی شامل ہیں۔ مذہبی و دینی ادباء میں مولانا میر حسن،حافظ صابرعلی بھوپال والا،حکیم خادم علی،ساجد میر،مولانا سلمان مصباحی، مولانا حافظ عمران آسی سیالکوٹ سے ہیں، کھیلوں کے میدان میں کئی بین الاقوامی کھلاڑی اسی خطہ زمیں سے اٹھے کرکٹراعجاز احمد، شعیب ملک،عبدالرحمن،محمد عباس جبکہ شعبہ صحافت اور سیاست میں وارث میر،حامد میرباپ بیٹا،فن مصوری میں سیالکوٹ کا نام بلند کرنے والے اسلم کمال، کنور بشیر ہیں ۔اس شہر کے شمال میں جموں کشمیر کے شہر جموں،اکھنور، گجرات شہر ہے مشرق میں کنگرہ،ظفروال اورانڈیا کا سامبا شہر ہے۔ جبکہ جنوب میں نارووال،بدوملہی کا علاقہ ہے اورجنوب مغرب میں گوجرانوالہ اور مغرب میں سمبڑیال وزیر آباد ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں سیالکوٹ کے ایک چھوٹے شہرچونڈہ میں ٹینکوں کی بڑی لڑائی لڑی گئی تھی۔ یہ شہر زمین پرسیالکوٹ کے نام سے ہمیشہ زندہ رہے گا سیالکوٹ میرا شہر ہے اور میں سیالکوٹ ہوں۔

شاہد محمود سیالکوٹ
16/10/2025

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں