123

*جھنگ(جاوید اعوان سے)میں ڈاکٹر احمد شہزاد اور اکاؤنٹس آفس کے درمیان مالی بے ضابطگی بے نقاب ریکوری فارم 32-A کے ذریعے جعلی ادائیگی کی تصدیق*

*جھنگ(جاوید اعوان سے)میں ڈاکٹر احمد شہزاد اور اکاؤنٹس آفس کے درمیان مالی بے ضابطگی بے نقاب ریکوری فارم 32-A کے ذریعے جعلی ادائیگی کی تصدیق*
*ضلع جھنگ میں محکمہ صحت کے اعلیٰ افسر ڈاکٹر محمد احمد شہزاد، چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی جھنگ، اور ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس جھنگ کے مابین مبینہ مالی جعلسازی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور آڈٹ لاپروائی کا سنگین معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب* *ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس جھنگ نے اپنے مراسلہ نمبر *DAO/JNG/PR-II/CD-398 مورخہ 19 ستمبر 2025 کے ذریعے ڈاکٹر احمد شہزاد کو ہدایت کی کہ نان پریکٹسنگ الاؤنس (NPA) کے تحت زائد ادائیگی شدہ رقم روپے 478,137/- مبلغ چار لاکھ اٹھہتر ہزار ایک سو سینتیس روپے ریکوری فارم 32-A کے ذریعے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروایا جائے۔ اس مراسلے نے اس بات کی باضابطہ تصدیق کر دی کہ جعلی یا غیر مجاز ادائیگی کی گئی تھی اور بعد ازاں اسے درست ثابت کرنے کے لیے ریکوری کا عمل شروع کرنا پڑا*۔
*سرکاری ریکارڈ کے مطابق نان پریکٹسنگ الاؤنس کی ادائیگی ڈاکٹر احمد شہزاد کے حق میں اس وقت کی گئی جب نہ تو آڈٹ تصدیق مکمل تھی اور نہ ہی متعلقہ حلف نامہ مؤثر ہوا تھا۔ اکاؤنٹس آفس نے یہ رقم بغیر فنانس ڈیپارٹمنٹ کی منظوری اور آڈٹ ویریفکیشن کے ریلیز کی، جو مالیاتی قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بعد ازاں اکاؤنٹس آفس کی اپنی رپورٹ نمبر DAO-JNG/PAYROLL-II/CD-3621 مورخہ 14 اکتوبر 2025 میں یہ تسلیم کیا گیا کہ نان پریکٹسنگ الاؤنس غلط تاریخِ مؤثریت سے ادا کیا گیا، جس کے نتیجے میں زائد ادائیگی* *(Overpayment) ہوئی۔ اسی رپورٹ میں ریکوری فارم 32-A کے ذریعے واگزاری کا حکم دیا گیا، جو شہری شکایت کنندہ کے مؤقف کو درست ثابت کرتا ہے*۔
*قانونی ماہرین کے مطابق، اس معاملے میں دو مختلف سطحوں پر سنگین بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ اول، ڈاکٹر احمد شہزاد نے بطور گزیٹیڈ آفیسر اپنے دستخط سے خود الاؤنس کی منظوری دی، جو اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہے اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 409 (Criminal Breach of Trust by Public Servant) کے تحت قابلِ گرفت جرم ہے۔ دوم، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس نے بغیر آڈٹ ویریفکیشن کے سرکاری فنڈز سے رقم جاری کر کے مالی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا، جو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 420 (Cheating) اور دفعہ 468 (Forgery for Purpose of Cheating) کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر دونوں محکموں کے درمیان ملی بھگت ثابت ہو جائے تو یہ عمل کرپشن ایکٹ 1947ء کی دفعہ 5(2) کے تحت بدعنوانی* *(Corruption and Misuse of Authority) کے زمرے میں آتا ہے، جو فوجداری نوعیت کا جرم ہے*۔
*ذرائع کے مطابق، یہ معاملہ ایک شہری کی شکایت پر منظر عام پر آیا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اصل جعلسازی کو نظرانداز کر کے ریکوری فارم 32-A کے ذریعے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صوبائی محتسب اعلی پنجاب نے اس واقعہ پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس جھنگ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ شہری و قانونی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس مالی اسکینڈل میں ملوث تمام افسران کے خلاف شفاف تحقیقات کی جائیں تاکہ یہ طے ہو سکے کہ یہ معاملہ انتظامی غفلت کا نتیجہ ہے یا دانستہ جعلسازی*۔
*اگر تحقیقات میں یہ بے ضابطگیاں ثابت ہو گئیں تو ذمہ دار افسران کو تاخیر سے ریکوری، بدعنوانی، اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال پر نہ صرف محکمانہ کارروائی بلکہ فوجداری تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے*۔ *عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ جھنگ جیسے حساس ضلع میں مالی نظم و ضبط کی بحالی اور سرکاری فنڈز کے شفاف استعمال کے لیے یہ کیس ایک مثال کے طور پر نمٹایا جائے*۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں