85

*عصر حاضر میں فروغ تعلیم کے لیے معلم کا مثالی کردار* *راقم تحریر.مہر محمد شریف.ضلعی نائب صدر /میڈیا ایڈوائزر پنجاب ٹیچرز یونین ڈسٹرکٹ جھنگ*

*عصر حاضر میں فروغ تعلیم کے لیے معلم کا مثالی کردار*
*راقم تحریر.مہر محمد شریف.ضلعی نائب صدر /میڈیا ایڈوائزر پنجاب ٹیچرز یونین ڈسٹرکٹ جھنگ*
*عصر حاضر بلکہ ہر دور میں فروغ تعلیم اور علمی ترویج کے لیے اساتذہ کا کردار مثالی، درخشاں اور عہد ساز رہا ھے قوموں کی تعمیر کےحقیقی معمار اساتذہ ہی تو ہیں جن کی تعلیم و تربیت سے وطن کے نونہالوں کے علمی برگ و بار سنورتے ہیں یہ اساتذہ ہی تو ہیں جو طالب علموں کی صلاحیتوں کو آفرین کر تے ہیں اساتذہ ہی علم و فنون کا منبع و سرچشمہ ہیں، اساتذہ ہی معمار سیرت و کردار ہیں، اساتذہ ہی معمار قوم ہیں، اساتذہ ہی معمار اخلاقیات و اطوار ہیں اساتذہ سمندر کی موجوں کا وہ تسلسل ہیں جن کی تلاطم سے زندگی کا گماں ہوتا ہے اساتذہ ایسی صبا ہیں جس کی ٹھنڈک دلوں میں اتر جاتی ہے اساتذہ اپنے دامن میں ان گنت مشعلیں روشن کیے ہوئے ہیں جس کا انچل مستقبل کے جگنووں سے منور ہے خالق کائنات نے جب اس کائنات کی تخلیق فرمائی تو انسان کو اپنا نائب مقرر کیا اور اس دنیا میں سب سے محترم اور مقدس پیشہ استاد کا رکھا اسی لیے تو اللہ نے ہادی اعظم کو معلم بنا کر بھیجا اور پیغام حرا یہی ہے “اقراء بسم ربک الذی خلقلق الانسان “پڑھیے اپنے رب کے نام جس نے انسان کو پیدا فرمایا معلم کا کردار سیڑھی کی مانند
ہے جو خود تو اپنی جگہ پر رہتی ہے مگر دوسروں کو بلند سے بلند مقام عطا کرتی ہے استاد خود تو بادشاہ نہیں مگر بادشاہ گر ہے استاد خود تو ڈاکٹر نہیں مگر ڈاکٹر گر ہے استاد خود تو انجینیر نہیں مگر انجینئر بناتا ہے دنیا کی تاریخ میں سکندر اعظم فاتح گزرا ہے وہ ارسطو کا
شاگرد تھا ایک مرتبہ سفر کے دوران ندی اگئی تو سکندر اعظم نے اصرار کیا کہ ندی پہلے میں نے عبور کرنی ہے تو استاد نے شاگرد کی بات مان لی ندی عبور کرنے کے بعد ارسطو نے شاگرد سےندی پار کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے ندی کی گہرائیوں کا اندازہ نہیں تھا اگر میں اس میں ڈوب جاتا تو کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ کئی سکندر اعظم ایک ارسطو پیدا نہیں کر سکتے جبکہ ایک ارسطو کی سکندر اعظم پیدا کر سکتا ہے عصر حاضر کے قحط رجال کے پرفتن دور میں اساتذہ کو نا مساعد حالات اور عدم سہولیات ہونے کے باوجود پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کا رزلٹ ان کی محنت شاقہ اور علمی بصیرت کا غماز، ائینہ دار اور عکاس ہے
وقار انجمن ہم سے فروغ انجمن ہم ہیں
سکوت شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
ہمی سے بزم علم کو خاص نسبت ہے
بہاریں جانتی ہیں رونق صحن چمن ہم ہیں
عصر حاضر میں سکولوں سٹاف کی کمی سمعی و بصری معاونات کی عدم دستیابی ، لائبریریوں کا فقدان، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ لیبارٹریوں کا نہ ہونا ان سب چیزوں کے باوجود حالیہ رزلٹس میرے دعویٰ کی مدلل دلیل ہیں اور پاکستان کی تاریخ اٹھا کر اگر دیکھیں CSS ,PPSC میں کامیابی اور دنیا کے ہر شعبہ حیات میں گولڈ میڈلسٹ کے حاملین اساتذہ کے کردار کی حقانیت کو طشت ازبام کرتے ہیں ترقی کی اوج ثریا پر جتنے بھی کامیاب لوگ نظر اتے ہیں وہ سرکاری اداروں میں پڑھ کر ہی اس منصب جلیلہ پر متمکن ہوئے ہیں حکومتی اداروں کی ناکامی کو بنیاد بنا کر سرکاری اساتذہ کو کو ناکام کرنے کی مضموم کوشش کی جا رہی ہے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی پہ پردہ نہیں ڈالا جا سکتا حقائق کو غلط رنگ دے کر اس کے معنی و مفہوم کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا آفتاب اپنی دلیل خود اپ ہے اسی طرح استاتذہ کے علمی کردار کی حقانیت کو خارجی دلائل اور سہاروں کی ضرورت نہیں ہے ہمارے رزلٹس سرکاری اساتذہ کی طرف سے ان کو جواب ہے حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے آفاقی شعر کے مفہوم میں کچھ اس طرح تصرف کروں گا
ہم سے یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو تو بھی تو دلدار نہیں
علم کسی قسم کا ہو وہ معلم کی مرہون منت ہوتا ہے جس طرح عمل کے بغیر علم روشنی کے بغیر ستارے خوشبو کے بغیر پھول سورج کے بغیر صبح بے معنی ہوتے ہیں اسی طرح کسی رہنما معلم کے بغیر ا انسان بے نام و نشان ہوتا ہے اور مقام تاسف ہے وہی اساتذہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں

علم و ہنر کے گوہر نایاب اساتذہ ہیں
قوم کے محسن اس کے معمار اساتذہ ہیں
میں ان کو کیا خیراج تحسین پیش کر سکوں گا
میرے سارے لفظوں کی وجہ اساتذہ ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں