سلگتا سگریٹ
ڈاکٹر عابدہ بتول
ہجومِ دوستاں میں دن بھر گھرے رہنے کے بعد شام گھر واپس جانے سے پہلے ،جانے کیوں نہر کنارے بیٹھنے کو دل مچلا، تو دل کے ہاتھوں مجبور گاڑی روکی اور اپنی محبت میں بیٹھ گیا۔سوچا انسان کو خود سے بھی محبت کرنی چاہیے کیوں کہ ہم دوسروں سے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں کہ اس نے ہم سے یہ کہہ دیا، اس نے یہ کر دیا، مگر ہم جو زیادتیاں اپنے ساتھ خود کرتے ہیں انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں کیوں؟ یہی سوچ کر میں نہر کنارے بیٹھا لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص آیا ،ٹھنڈبہت تھی وہ جاڑے کی شدت سے ٹھٹھر رہا تھا۔ بولا بھائی اس کڑکڑاتے جاڑے میں نہر کنارے خیر تو ہے؟ایک لمحے تو اس اجنبی کا اس بے تکلفی سے پوچھنا مجھےحیران کر گیا مگر اگلے لمحے خوش بھی ہوئی۔خوش اس لیے کہ آج کے اس بے حسی کے دور میں بھی احساس ابھی زندہ ہے تو میرا حوصلہ بڑا اور میں نے مسکرا کر کہا،خود سے محبت ہو گئی ہے۔اجنبی مسکرایا اور شائد مجھے پاگل سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔اس اجنبی کے جانے کے بعد میں نےسوچا کہ یہ ہے تو پاگل پن ، چلیں خیر ہر موسم سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ میری خود کلامی جاری تھی کہ رفتہ رفتہ لوگوں کی آمدورفت کم ہونے لگی غالباًجاڑے کی سختی لوگوں کو گھر واپس لوٹنے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں بھی سوچنے لگا کہ اس یخ بستہ رات میں زیادہ دیر تک باہر رہنا ٹھیک نہیں الہذٰا گھر جانے کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ ایک گاڑی تیزی سے میرے قریب سے گزری اور اگلے ہی لمحے واپس پلٹ کر میرے اتنے قریب آگئی لگا ،کچلا جاؤں گا۔ابھی حواس پوری طرح قائم نہیں ہوتے تھے کہ سیف گاڑی سے اترا اور شدتِ جذبات سے یوں لپٹ گیا کہ اس کا چہرہ ٹھیک سے دیکھ نہ سکا۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو میں اسے پھر بھی پہچان نہ پایا کیوں کہ اس نے چند سالوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیا تھا۔البتہ اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ سوز بھر گیا تھا۔ وہ بولتا رہا اور میں ایک بہت اچھے سامع کی طرح چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا۔اتنا کچھ ہو گیا اور تم مجھے اب بتا رہے ہویار،میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ سیف نے میرا بازو پکڑا اور بیٹھا لیا اور بولا “عشق مزدور کو مزدوری کے دوران نہ ہو”۔میں نے حیرانی سے اسے دیکھا اور کہا یہ تم افکار علوی کو کب سے سننے ،پڑھنے لگے؟ تو کہنے لگا یہ مصرع مجھے اپنے حقیقت حال لگتا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی پڑھا یا سنا نہیں جاتا مجھ سے کیوں کہ میں اپنا مستقبل سنوارنے اور خود کو منوانے میں اتنا مصروف رہا کہ چھوڑ جانے والوں کو وقت نہ دے سکا ۔سیف ابھی مزید بولنے ہی والا تھا کہ اچانک قریب سے ایک نوجوان گزرا ،جو سگریٹ کے کش لگاتا چلا آ رہا تھا اور ہم دونوں کے قریب پہنچ کر اس نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور باقی پھینک کر چلا گیا ۔تو اس سلگتے سگریٹ کے باقی حصے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ اب حالت اس جیسی ہے،کاش وہ جاتے ہوئے اسے کچل کر آگے بڑھ جاتا،دیر تک سلگنے کی اذیت کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے اسے کیا معلوم یا شائد کبھی علم ہوکہ باقی ماندہ انسان کب تک سلگتا رہے گا۔۔
