99

*جھنگ(جاوید اعوان سے) محکمہ صحت کے ہیڈ کلرک کا مالیاتی اختیارات پر ناجائز قبضہ، جعلی تقرری نامے، بوگس بلز اور تاخیری تنخواہ کا سنگین اسکینڈل – صوبائی محتسب اعلیٰ پنجاب کا نوٹس*

*جھنگ(جاوید اعوان سے) محکمہ صحت کے ہیڈ کلرک کا مالیاتی اختیارات پر ناجائز قبضہ، جعلی تقرری نامے، بوگس بلز اور تاخیری تنخواہ کا سنگین اسکینڈل – صوبائی محتسب اعلیٰ پنجاب کا نوٹس*
*محکمہ صحت جھنگ میں اختیارات کے بے جا استعمال اور مالی بدعنوانی کا ایک نہایت سنگین و لرزہ خیز اسکینڈل منظرِ عام پر آ گیا ہے۔ ابتدائی حقائق سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ ہیڈ کلرک (DHO آفس* *پریوینٹیو سروسز جھنگ) کو غیر قانونی طور پر کئی برسوں سے اکاؤنٹنٹ کا اضافی چارج تفویض کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس نے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بوگس بلز کی تیاری، جعلی آرڈرز کے اجراء اور غیر قانونی ادائیگیوں جیسے اقدامات کیے*۔
*معتبر شواہد سے انکشاف ہوا ہے کہ متعدد ملازمین کے جعلی سروس آرڈرز تیار کیے گئے، حتیٰ کہ کلثوم اختر کے تقرری آرڈرز کو دانستہ طور پر ڈی ایچ کیو جھنگ کے ظاہر کر کے، تنخواہ ایک سال کی تاخیر سے DHO کوڈ سے ریلیز کی گئی۔ اس عمل نے نہ صرف مالی بدعنوانی کی سنگین جھلک پیش کی بلکہ محکمہ جاتی قواعد کی صریحاً خلاف ورزی بھی آشکار کر دی*۔
*مزید برآں، ریکارڈ سے یہ لرزہ خیز پہلو سامنے آیا ہے کہ اس تمام سکینڈل میں بیشمار جعلی و خودساختہ میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹس منظرِ عام پر آئے جو ہاتھ سے لکھے گئے جبکہ متعلقہ دورانیہ میں ایسے سرٹیفکیٹس کا نظام سراسر کمپیوٹرائزڈ تھا۔ اس جعل سازی میں متعلقہ DDOs، اکاؤنٹنٹ، ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس اور آڈیٹر کی ملی بھگت کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں۔ دوسری طرف ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر جھنگ نے اپنے موقف میں اس پورے عمل کی ذمہ داری متعلقہ DDOs پر ڈال کر یہ عندیہ دیا ہے کہ محکمہ صحت کا بجٹ اور فنڈ کسی طور پر بھی محفوظ ہاتھوں میں نہیں*۔
*قانونی ماہرین کے مطابق یہ ساری کارروائی نہ صرف سروس رولز 1974 کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 409، 420، 468، 471 اور Prevention of Corruption Act 1947 کے تحت ناقابلِ معافی جرائم کے زمرے میں آتی ہے*۔
*ایڈوائزر صوبائی محتسب اعلیٰ پنجاب نے اس معاملہ پر سخت نوٹس لیتے ہوئے مکمل ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور واضح ہدایات دی ہیں کہ تمام ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ عدالت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر الزامات قرائن و شواہد سے ثابت ہوگئے تو نہ صرف متعلقہ ہیڈ کلرک بلکہ وہ تمام افسران بھی قانون کی گرفت میں آئیں گے جنہوں نے اس غیر قانونی تعیناتی اور مالی اختیارات کی پردہ پوشی کی*۔
*عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت جیسے حساس ادارے میں ایسی نوعیت کی بدعنوانی ریاستی نظم و نسق اور عوامی اعتماد کے لیے شدید دھچکا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس معاملہ کی شفاف تحقیقات کر کے اصل ذمہ داران کو قانون کے مطابق عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ یہ واقعہ آنے والے وقتوں کے لیے ایک نشانِ عبرت بن سکے*۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں