204

*جھنگ(جاوید اعوان سے) آئس کا نشہ دیمک کی طرح نوجوان نسل کو چاٹ رہا ھے*۔

*جھنگ(جاوید اعوان سے) آئس کا نشہ دیمک کی طرح نوجوان نسل کو چاٹ رہا ھے*۔
*ٹاپ کرنے کا جنون، نمبروں کی سخت مقابلہ بازی، پراجیکٹ کی تیاری، اسائمنٹس کا بوجھ نوجوانوں کو آئس کے نشے کی طرف راغب کر رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر کنول الطاف نے چناب پریس کلب جھنگ کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران بتایا اس موقع پر سینئر صحافی محمد یوسف رضا بھٹی اور سہیل احمد بھی موجود تھے ڈاکٹر کنول الطاف نے کہا کہ آئس کا نشہ کرنے کے بعد بھوک و پیاس سے مبرا انسان 24 سے 48 گھنٹے با آسانی جاگ سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وباء کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ منشیات فروشوں کی ہٹ لسٹ پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبا ہیں کیونکہ امیر اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سے رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ ان منشیات میں خاص طور پر کوکین، مارفین، ٹریماڈول، میتھاڈون، ڈایامارفین، فینٹانل اور میفیڈرون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آئس ”میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی کیمیکل سے بنتی ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے بلب کے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے۔ یہ آئس کرسٹل ایک ٹافی کی مانند دکھائی دیتی ہے، والدین کو شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نشہ آور چیز ہے۔ نشہ کرنے کے بعد نشئی کی توانائی دوگنا ہو جاتی ہے۔ بھوک پیاس سے قدرے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ نیز 24 تا 48 گھنٹے با آسانی جاگ سکتا ہے۔ اس نشے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دوسری بار کے استعمال سے ہی کوئی بھی شخص اس کا عادی بن جاتا ہے۔ اگر اس نشے کی تھوڑی سی مقدار سے بھی تجاوز کیا جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ بشمول لڑکیاں جو کہ ہاسٹلز کی مکین ہوتی ہیں وہ یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ منشیات کا استعمال عارضی ہے، وہ اسے پریشانی کے دوران مثلاً امتحان یا کسی پراجیکٹ کی تیاری یا موڈ بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
دوسری جانب معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اساتذہ اپنا کلیدی کردار ادا نہیں کر رہے۔ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ لیکچرز کے دوران سوالات پوچھنا اور طلبہ کی بہتر ذہن سازی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے اساتذہ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کس جہان میں ہیں۔ لیکن اساتذہ کے سوالات پوچھنے کی روایت ہی معدوم ہوگئی ہے۔ڈاکٹر کنول الطاف کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ کہ والدین بچوں کی سرگرمیوں پر موجودہ حالات کے پیش نظر کڑی جانچ پڑتال کریں۔ اگر بچے کی صحت تیزی سے گر رہی ہے، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہوگئے ہیں یا آنکھیں اکثر سرخ رہنے لگی ہیں، میلے کپڑے اور نہانے دھونے سے دور بھاگتا ہے، گھر کے بزرگوں یا گھر والوں سے نظریں چُرارہا ہے۔ واش روم میں بہت دیر لگاتا ہے، کھانے پینے کی چیزیں ذائقے میں کڑوی لگتی ہیں یا سوتے ہوئے منہ آدھا کھلا دکھائی دیتا ہے تو یہ نشے کی علامات ہو سکتی ہیں۔ اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ نشہ کرنے والا اسٹوڈنٹ مجرم نہیں بلکہ مریض ہے، اس سے شفقت سے پیش آئیں اور فوری طور پر علاج معالجہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ بچوں کو احساس دلایا جائے کہ ان کا مستقبل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بھی برباد ہوسکتی ہے اور ان ڈگریوں کا کیا فائدہ ہوگا جب کریکٹر سرٹیفکیٹ پر نشئی کا لیبل لگ جائے گا۔اگر طالبات اس نشہ میں ملوث پائی گئیں تو اس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس ضمن میں مریض کے گھر والے، دوست عزیز و اقارب اور معاشرہ اپنا کردار ادا کرے تو نشے سے چھٹکارا مل سکتا ھے*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں